Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

12 شہر یار آفس جانے کیلئے تیار ہو کر کمرے سے نکل کر ڈائننگ روم میں آیا ، ٹیبل پر اس کا ناشتہ تیار رکھا تھا ملازم قریب ہی کھڑا ہوا تھا ، مودبانہ انداز میں وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوا۔
”ممی! ڈیڈی نے آج جلدی ناشتہ کر لیا ہے؟“ وہ بوائل انڈے کانٹے کی مدد سے پلیٹ میں رکھتا ہوا بولا۔
”نہیں صاحب! انہوں نے ناشتہ ہی نہیں کیا۔“
”کیوں؟“ وہ انڈے پر کالی مرچ چھڑکتے ہوئے حیرانی سے گویا ہوا۔
”صبح سویرے بیگم صاحبہ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی ، صاحب ان کو ہسپتال لے کر گئے ہوئے ہیں۔“ وہ سادگی بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”وہ… وہ صاحب! میں نے سوچا آپ ناشتہ کر لیں تو پھر بتاؤں گا۔“ ملازم رجب اس کے بگڑے تیور دیکھ کر مارے خوف کے کانپتے ہوئے گویا ہوا اس اثناء میں وہ کرسی سے اٹھ چکا تھا۔


”یہ تم فیصلہ کرو گے کہ مجھے کب بتانا ہے اور کب نہیں؟ یہ سب ممی کی چھوٹ ہے جو تم جیسے دو ٹکے کے ملازم اس گھر کے فیصلے کر ہے ہیں۔
“ اس نے پرطیش انداز میں زور دار تھپڑ اس عمر رسیدہ ملازم کے چہرے پر مارا تھا ، ملازم ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگا۔
”بابا صاحب… بابا صاحب! معاف کر دیں غلطی ہو گئی ، آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں ہو گی۔“ اس کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔
”گیٹ لاسٹ۔ میں نے تمہیں یہاں دیکھا تو شوٹ کر دوں گا۔“ اسی لمحے باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی تھی وہ رجب کو گھورتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا ، ممی ڈیڈی اس کو کوریڈور میں مل گئے تھے۔
”ارے کیا ہوا بابا! آپ کا چہرہ اس قدر سرخ کیوں ہو رہا ہے؟“ مسز عابدی دھیرے دھیرے چلتی ہوئی آ رہی تھیں ، بیٹے کے وجیہہ چہرے پر غصے کی لالی دیکھ کر ان کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہونے لگا تھا۔
”آپ نے نوکروں کو کچھ زیادہ ہی سر چڑھا لیا ہے اب ان کی تنی جرأت ہو گئی ہے ہمارے فیصلے بھی یہ خود کرنے لگے ہیں۔“ اس کا موڈ بری طرح آف تھا۔
”اپنی ممی کا ہاتھ پکڑ کر لے کر جائیں ، میں آتا ہوں ابھی۔
“ مسٹر عابدی کی نگاہ کچھ فاصلے پر کھڑے رجب پر پڑی تھی جو ابھی بھی کانپ رہا تھا اور خاصا حواس باختہ و پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
”آئیں ممی! آپ ہسپتال بھی جا کر آ گئیں اور مجھے انفارم بھی نہیں کیا؟“ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے روم میں لے آیا تھا اور بیڈ پر لیٹنے میں مدد دیتے ہوئے شکایتی لہجے میں گویا ہوا تھا۔
”خفا نہ ہو میری جان! ایسی پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی ، معمولی سا بی پی شوٹ کر گیا تھا عابدی تو سدا کے جلد باز ہیں فوراً ہی وہ مجھے ہسپتال لے گئے، نامعلوم کیوں میری طرف سے اتنے فکر مند رہتے ہیں۔
“ وہ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر گویا ہوئی تھیں۔
”ڈیڈی کو آپ کی جیسی وائف اور مجھے آپ جیسی ممی کہاں مل کستی ہے۔ آپ سے ہی یہ گھر روشن ہے ممی! اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟“ وہ دیکھ رہا تھا ان کے چہرے پر نقاہت تھی اپنی تکلیف کو وہ مسکراہٹ کے پردوں میں چھپانے کی سعی کر رہی تھیں۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ، کچھ نہیں ہوا مجھے ، ناشتہ کیا آپ نے ، میں بابا رجب کو تاکید کرکے گئی تھی وہ آپ کو ناشتہ دیں اور میری طبیعت کے بارے میں کچھ نہ بتائیں۔
“ وہ مسکرائیں۔
”یہ اچھی بات نہیں ہے ممی! اس طرح نوکر سر چڑھنے لگتے ہیں اور خود فیصلے کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سب مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔“ اس کے انداز میں ناخوشگواری نہ تھی۔
”میں نے رجب کو ملازمت سے نکال دیا ہے ، بہت سر اٹھانے لگا ہے وہ ، ان زمین کی کیڑوں کو زمین پر ہی…“
”شیری! یہ کس انداز میں بات کر رہے ہیں آپ ، رجب ہمارا پرانا ملازم ہے اس کی نمک حلالی اور تابعداری پر کسی قسم کا شک بھی نہیں کر سکتے۔
اس کا خاندان پشتوں سے ہمارے خاندان کی خدمت کرتا آ رہا ہے میں اس کو اس گھر کا فرد ہی سمجھتی ہوں۔“
”میں آپ کے خیالات سے ایگری نہیں کرتا ممی! میں نوکر کو نوکر ہی سمجھتا ہوں اور یہی ٹھیک ہے ہونا بھی ایسا ہی چاہئے۔“
”کس بات پر بحث ہو رہی ہے ماں بیٹھے میں؟“ عابدی صاحب مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوتے ہوئے گویا ہوئے۔
”یہ بابا نے رجب کو ملازمت سے نکال دیا ہے۔
“ مسز عابدی خاصے پریشان کن لہجے میں مسٹر عابدی سے بولیں۔
”ممی! آپ اس قدر ڈسٹرب کیوں ہو رہی ہیں؟ ملازموں کی کمی تو نہیں ہے یہاں پر ایک ڈھونڈو لاکھوں مل جائیں گے ، وہ ایک ہی ملازم تو نہیں ہے اس شہر میں۔“
”درست کہہ رہے ہیں آپ بیٹا ملازموں کی کمی نہیں ہے یہاں پر۔“
”پھر مما کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟“ وہ ان کی بات کاٹ کر کہہ اٹھا۔
”ملازم اور وفادار ملازم میں بے حد فرق ہے شیری! رجب پر ہم آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں اور اس نے کبھی بھی ہمارے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی ہے ، اس گھر کی ہم سے زیادہ حفاظت کرتا ہے وہ اس کی وفاداری اور ایمانداری پر کسی طرح بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ملازم بہت مل جائیں گے مگر رجب جیسے نمک حلال نہیں ملیں گے ، اس کو گھر سے نکالنے کا خیال دل سے نکال دیں آپ۔
“ عابدی صاحب رجب سے ساری بات معلوم کرکے یہاں آئے تھے اور رسانیت سے اس کو سمجھا رہے تھے۔
”ڈیڈی آپ بھی جذباتی ہو رہے ہیں ممی کی طرح ، یہی تو وہ کمزوری ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں نوکر صرف نوکر ہوتے ہیں۔ میں ان کو اپنے برابر بٹھانے کا قائل نہیں ہوں۔“
”ٹھیک ہے میں اس فضول بحث میں پڑنا نہیں چاہتا ، آپ کی ممی کی طبیعت سے میں مطمئن نہیں ہوں ، آپ آفس چلے جائیں بہت امپورٹنٹ میٹنگ ہے آج آپ کو وہ فیاض کے ساتھ اٹینڈ کرنی ہے ، میں آج آفس نہیں آؤں گا۔
“ اس کے موڈ کو بری طرح بگڑتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے موصوع بدل دیا تھا۔
”لیکن ڈیڈی! میں نہیں جانتا کس لئے میٹنگ ہے ، میں کیا ڈسکس کروں گا؟“ وہ شانے اچکا کر حیرانی سے گویا ہوا۔
”میں فیاض کو بریف کر چکا ہوں ، وہ تمہاری مدد کریں گے۔“
”ڈیٹس رائٹ! انکل ہیں تو پھر مجھے فکر کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بہت زیادہ کاپریٹو پرسن ہیں۔
“ اس کے چہرے پر سکون چھا گیا وہ ماں کو پیار کرکے وہاں سے چلا گیا تو مسز عابدی غم زدہ لہجے میں گویا ہوئیں۔
”یہ ہمارا بیٹا کس راستے پر چل رہا ہے عابدی! آپ نے دیکھا شیری کے لہجے میں کس قدر تکبر اور بدلحاظی تھی۔“
”ڈونٹ وری! سب وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جائے گا ، آپ ٹینشن مت لیں ، ڈاکٹر نے سختی سے تاکید کی ہے پریشانیوں سے دور رہنے کی۔
###
چاند بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا موسم خوشگوار تھا مدھم چلتی ٹھنڈی ہواؤں میں صحرائی حدت موجود تھی ، غفران احمر کے خوبصورت محل میں نفیس رات کا پرسکون اندھیرا چھایا ہوا تھا
غفران احمر اپنی شاندار خواب گاہ میں بیش قیمت ریشمی بستر پر محو خواب تھا، کمرے کی نیگوں روشنی میں اس کے چہرے پر میٹھی سی مسکان تھی جب سے ماہ رخ کو اپنانے کا خیال اس کے دل میں جاگزیں ہوا تھا اس کے مزاج میں خوشگوار تبدیلی در آئی تھی ، سخت مزاجی و بد دماغی برف کی مانند بہہ گئی تھی۔
ماہ رخ سے ہونے والی شدید محبت نے اس کو بے سدھ کر ڈالا تھا ، بڑھاپے کی دہلیز عبور کرتے اس کے قدم بوڑھے عشق سے اس طرح ڈگمگائے تھے وہ چت گر پڑا تھا۔
دلربا نے کئی بار کوشش کی اس کو اعوان اور ماہ رخ کے تعلقات بتانے کی مگر اس کائیاں عورت کی جہاندیدہ نظریں غفران احمر کی نگاہوں میں جلتی محبت کی قندیلیں دیکھ کر ہر بار اپنے ارادے کو دل میں ہی محفوظ رکھتی رہی کہ وہ ہمت ہارنے والی عورت نہ تھی پھر وہ یہ تہیہ کر چکی تھی کسی نہ کسی طرح غفران احمر کو ماہ رخ اور اعوان کی اصلیت ضرور بتائے گی اور ماہ رخ کو اس کی بیوی نہیں بننے دے گی۔
اب بھی وہ چپکے چپکے غفران احمر کے بیڈ روم میں آئی تھی اور اس کو سوتے دیکھ کر کچھ لمحے اس کے چہرے کو جانچتی نگاہوں سے دیکھتی رہی تھی لیکن غفران احمر کے جاگنے کے کوئی آثار نہیں تھے اور زیادہ دیر یہاں رکنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ کوئی ملازمہ دیکھ لیتی تو وہ یہاں آنے کا کیا جواز پیش کرتی کیونکہ ان دنوں غفران احمر تنہائی پسند ہو گیا تھا ہر رنگینی سے منہ موڑا ہوا تھا۔
اس کی پارسائی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایک ہفتے ماہ رخ سے بھی ملاقات نہ کی تھی اور اس سے کہا تھا نکاح کے دن ہی وہ ملیں گے یہ سب دلربا کی برداشت سے زیادہ تھا۔
معاً اس کو باہر کوئی آہٹیں محسوس ہوئی تھیں وہ چونک کر بلی کی سی چال چلتی ہوئی خواب گاہ سے باہر نکل آئی جہاں وسیع و عریض کوریڈور کی دیواروں میں بڑی بڑی کھڑکیاں نصب تھیں جو بھاری مخملی پردوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اور وہاں کوئی نہ تھا۔
دلربا نے محتاط انداز میں سب طرف دیکھا اور باہر نکل آئی اس کی نگاہیں کچھ فاصلے پر بنے گیسٹ روم کی طرف اٹھی تھیں، اس طرف بھی سناٹا چھایا ہوا تھا باہر گیٹ بند تھا۔
”یہاں تو کوئی نہیں ہے پھر مجھے کیوں لگا اس طرف کوئی ہے؟“ وہ سر پر ہاتھ رکھے سوچ رہی تھی۔ ”وہمی ہو گئی ہوں میں ، غفران کے چھن جانے کے خوف سے پاگل بنا ڈالا ہے مجھے اور کیوں نہ پاگل ہوں میں ، ساری عمر اس نے میری برباد کر دی اور اب اس لڑکی کو شریک حیات بنا رہا ہے جو کل تک اس کے اور اس جیسوں کیلئے کھلونا تھی۔
میں ایسا نہیں ہونے دوں گی ، خواہ مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔“ وہ بڑبڑاتی ہوئی اپنے رہائشی حصے کی طرف چلی گئی۔
”بچ گئے۔“ کچھ دیر بعد دو سائے پیچھے ایک ستون کی آڑ سے نکلے تھے چند ثانیے گہری گہری سانسیں لینے کے بعد حاجرہ نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
”کیوں ڈرتی ہو اتنا تم حاجرہ! اس طرح تھوڑی ایک معمولی سی عورت سے تم اتنا خوف زدہ ہو کر مجھے حیران کر رہی ہو۔
“ اعوان نے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے تعجب سے کہا۔
”آپ نہیں جان سکتے ، اعوان صاحب! وہ کوئی معمولی عورت نہیں ہے بہت پاور ہے اس کی یہاں ، رئیس اس کی باتوں پر حرف بہ حرف یقین رکھتے ہیں جو وہ کہتی ہے رئیس ویسا ہی کرتے ہیں۔“
”ڈیٹس امیزنگ! ایک کنیز پر اتنا یقین ہے غفران احمر کو؟“
”ایک بات بتاؤں آپ کو؟“ وہ بے ساختہ گویا ہوئی۔
”ہاں ہاں ، ضرور بتاؤ؟“ وہ نرمی سے بولا۔
”جو کنیزیں ہوتی ہیں وہ ایسے مردوں کو اپنی بیویوں سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں وہ بیویوں کو جائیدادیں دیتے ہیں اور دل ہم جیسی کنیزوں کو ، وہ بیویوں کے بغیر رہ سکتے ہیں ہمارے بنا نہیں۔“ اس کے لہجے میں شکست و فتح گڈ مڈ تھی وہ چپ رہا۔
”جائیں ، آپ اپنے روم میں میں نے آپ سے کہا تھا وہ آپ سے نہیں ملیں گی۔ آج تو آپ یہاں تک آ گئے ہیں ، آئندہ ایسی غلطی بھول کر بھی مت کیجئے گا۔“ حاجرہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔

   1
0 Comments